صدقئہ فطر کے مسائل

صدقئہ فطر کے مسائل
صدقئہ فطر کا مقصد روزے کی حالت میں سرزد ہونے والے گناہوں سے خود کو پاک کرنا ہے۔صدقہ فطر نماز عید سے قبل ادا کرنا چاہئے ورنہ عام صدقہ شمار ہوگا۔


صدقہ فطر کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوة کے مستحق ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر، روزے دار کو بیہودگی اور فحش باتوں سے پاک کرنے کے لئے نیز محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے فرض کیا ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے ادا کیا اس کا صدقہ فطر ادا ہوگیا اور جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا اس کا صدقہ فطر عام صدقہ شمار ہوگا۔
اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔صحیح سنن ابن ماجہ۔ للالبانی، الجزءالاول، رقم الحدیث1480

Description: http://www.urdu.co/images/media/ijunoon_5854122010.gif صدقئہ فطر ہر مسلمان غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، روزہ دار ہویا غیر روزہ دار، صاحب نصاب ہو یا نہ ہو، سب پر فرض ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو، غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے، بڑے ہر مسلمان پر فرض کیا ہے۔
اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔صحیح بخاری، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر

وضاحت: جس شخص کے پاس ایک دن رات کی خوراک میسر نہ ہو وہ صدقہ ادا کرنے سے مستثنٰی ہے۔
  رقم فی افراد ایک سو روپیہ گیہوں، چاول، جَو، کھجور، منقّہ یا پنیر میں سے جو چیز، زیرِ استعمال ہو، وہی دینی چاہئے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقہ فطر ایک صاع غلہ یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقّہ دیا کرتے تھے۔
اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔اللؤ لؤ والمرجان، الجزءالاول، رقم الحدیث572


 صدقئہ فطر گھر کے سرپرست کو گھر کے تمام افرداد بیوی، بچوں اور ملازموں کی طرف سے ادا کرنا چاہئے۔
حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقئہ فطر دیتے تھے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں کو دیتے تھے جو قبول کرتے اور عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے دیتے تھے۔
اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر علی الحر والمملوک